میرے ہمدم دیرینہ میرے ہمنشیں
تجھ سے کوئی بھی گلہ نہیں
یہ جو خیال سود و زیاں ہے
یہ اب بھی دل سے گیا نہیں
دیرینہ ساتھ کا جو سراب تھا
اس کا آسیب ابھی چھٹا نہیں
کرنے کو تو کی جا سکتی ہے بسر
زندگی اتنی بھی ہم کو گراں نہیں
تم ہی نے کہا تھا رکنے کے لیے
ورنہ ہم اتنے بھی تہی داماں نہیں
ہر بات پہ کہتے ہو سوچو گے
تم کو تو دل کا بھی اپنے پتا نہیں
رکھتے ہوہرچیزمیںحساب کتاب تم
یہ میرا دل ہے کاروبار وفا نہیں
آج کل ہوا کی زد میں ہے دل صبا
کب چھوڑجاے ساتھ اپنا، پتا نہیں