Sunday, January 31, 2016



میرے ہمدم دیرینہ میرے ہمنشیں 
تجھ  سے کوئی  بھی  گلہ  نہیں 

یہ  جو  خیال سود و زیاں  ہے 
یہ اب بھی دل  سے  گیا  نہیں 

دیرینہ  ساتھ  کا جو سراب  تھا 
اس کا  آسیب  ابھی چھٹا نہیں 

کرنے کو تو کی جا سکتی ہے بسر 
زندگی اتنی بھی ہم کو گراں نہیں 

تم ہی نے کہا تھا رکنے کے لیے 
ورنہ ہم اتنے بھی تہی داماں نہیں 

ہر بات پہ کہتے ہو سوچو گے 
تم کو تو دل کا بھی اپنے پتا نہیں 

رکھتے ہوہرچیزمیںحساب کتاب تم
یہ میرا دل ہے کاروبار وفا نہیں 

آج کل ہوا کی زد میں ہے دل صبا 
کب چھوڑجاے ساتھ اپنا، پتا نہیں   

Tuesday, January 12, 2016



رشتوں کی کہانی 


میسر نہیں الفاظ، رشتوں کی کہانی لکھنے کو،
تھے محتاج ان کے تو میسر نہ تھے وہ 
وقت کی کٹھن رہوں پر گرتے پڑتے ،
اٹھائی ہے گٹھری ، ذات کی اپنی میں نے
 آ پہنچے ہیں اس نہج پہ آخر ،
جہاں نہ فرق پڑتا ہے کسی کے ہونے سے 
نہ ہے اب تشنگی کسی وابستگی کی ،
ہو ہیں میسر وقت ضرورت خود ہی اپنے آپ کو 

حدود 


سب اپنے اپنے دائرے کے محور میں گھومتے ہیں،
انسان بھی جیسے کسی کمہار کی،
بھٹی کا چاک ہوں جیسے 



نیند کی وادی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا،
الجھن سلجھن کی کہانی میں، نہ کچھ تیرا ہے نہ میرا 
کمرے کی کھڑکی بند ہے مگر،
دروازے سے جھانکتا ہے سویرا 
پڑا ہے پردہ آنکھوں پر ،
نہ جانے پھر زہن کی سلیٹ پر یہ نقش کیسے آ ٹہرا ؟
جنم جنم کا ساتھ ہے ، کوئی کل کی بات نہیں،
تیرا میرا یہ رشتہ ہے گہرا 
تو میرا ہمراز ہے، کیسے کچھ میں اور پھر سوچوں؟
سوچوں پر جما ہے اک تیرا ہی پہرا 



دل ناداں 


اے  دل ناداں ،
کیوں حسرت لئے اوروں کی،
رہتا ہے تو پشیمان 
اس گونگی بہری بستی میں،
ہر اک ہے دوسرے سے انجان 
سب کی اپنی اپنی دنیا ،
سب کا اپنا اپنا چاند 


میری زندگی اک کتاب ہے 

میری زندگی اک کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
میری آرزوئیں،
میری حسرتیں،
میری تشنہ لبی ،
میری ذات کا ہیں محور،
انہیں نہ تم گنا کرو 
میری زندگی اک کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
میں جو دن بھر کی مسافتوں سے تھک کر گروں تو ،
میرا حاصل،
میری کامیابیاں، 
میری محنتیں،
میری جفائیں دیکھو،
میری گھایل روح کو نہ تم دیکھا کرو
میری زندگی اک کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
یہ وصل،
یہ چاندنی راتیں،
سب نظر کا ہیں دھوکا ،
انہیں نہ تم حسرت سے دیکھا کرو 
میری زندگی اک کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو


تصور 


میں اس کے سامنے بیٹھی 
گھنٹوں باتیں کرتی رہی 
مگر!
سامنے کی کرسی خالی تھی